Breaking Tickers

اللہ کہاں ہے؟/Allah Kahan hai

اللہ کہاں ہے؟/Allah Kahan hai  

 
اللہ کہاں ہے؟/Allah Kahan hai
Allah Arsh par hai


  Allah Kahan hai اکثر یہ سوال کیا اور پوچھا جاتا ہے. آئیے قرآن اور سنّت کی روشنی میں جانے.
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری


    مومنوں کا عقیدہ اللّٰہ کہاں ہے 


     Allah Kahan hai مؤمنوں کا اجماعی واتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں :
    ” میں کہتا ہوں کہ سلف صالحین اور ائمہ سنت، بلکہ صحابہ کرام ، اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور تمام مؤمنوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلندی میں ، اپنے عرش پر اور اپنے آسما نوں کے اوپر ہے، وہ آسمانِ دنیا کی طرف نزول بھی فرماتا ہے، ان کی اس بارے میں دلیل (قرانی) نصوص اور (حدیثی) آثار ہیں ۔

    جہمیوں کا کہنا ہے:- کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر جگہ ہے، ان کے اس قول سے اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے، دراصل ہم جہاں بھی ہوتے ہیں ، وہ ہمارے ساتھ اپنے علم کے اعتبار سے ہوتاہے ۔

    متأخرین متکلمین نے کہا ہے:- کہ اللہ تعالیٰ نہ آسمان کے اوپر ہے ، نہ عرش پر، نہ زمین میں ، نہ کائنا ت میں داخل ، نہ کائنات سے خارج ، نہ اپنی مخلوق سے جدا اور نہ مخلوق سے متصل ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری کی ساری صفات ایک جسم کی ہیں اور اللہ تعالیٰ جسم سے منزہ ہے، اہل سنت والا ثر ( والجماعت) نےان سے کہا ہے کہ ہم اس بارے میں میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے اور جو ہم بیان کرچکے ہیں ، نصوص کی اتباع میں ہمارا وہی قول ہے۔۔۔ یہ تو کوئی وجود نہ رکھنے والی چیز کا انداز ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ عدم سے بہت بلند ہے، وہ تو موجود اور اپنی مخلوق سے ممتاز ہے، ان تمام صفات سے موصوف ہے، جن کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے، یعنی کہ بلاکیف عرش کے اوپر ہے، “(مختصر العلو للذھبی: ص۱۴۷-۱۴۶)۔

    Telegram Group Join Now

    اللّٰہ سبحان و تعالیٰ عرش پر مستوی ہے 

    اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ وہ احادیثِ صحیح ذکر کرتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کے عر ش پر بلند ہونے واضح طور پر دلالت کرتی ہیں :

    حدیث نمبر:1

    ” سید نا معاویہ بن حکم سلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی ، جو احد اور جوابیہ مقام کی طرف میری بکریا ں چراتی تھی، ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑ یا اس کے ریوڑ سے ایک بکری لے گیا، میں آدم زاد تھا، دوسروں کی طرح مجھے بھی افسوس ہوا، میں نے اسے ایک تھپڑ رسید کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے اس کام کو میرے لیے برا جانا، میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے آزادنہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا، اسے میرے پاس لاؤ ، میں اسے لے آیا ، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا ، اللہ کہا ں ہے؟ اس نے جواب دیا ، آسمانوں کے اوپر ، آپ نے فرما یا، میں کون ہوں ؟ اس نے جواباً عرض کیا ، آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ نے فرما یا، اس ےآزاد کردو کہ یہ مؤمنہ ہے۔”(صحیح مسلم : ۲۰۴-۲۰۳/۱، ح۵۳۷)

    یہ حدیث نصِ صریح ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، امام ابو الحسن الاشعری ؒ (م ۳۲۴ھ) اس حدیث سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے۔ “
    ( الا بانۃ فی أصلول الد یانۃ لأبی الحسن الا شعری : ص ۱۰۹)
    امام ابن عبد البر ؒ(م ۴۶۳ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

    “اس حدیث کا مفہوم واضح ہے، جس پر کلام کرنے کی ضرورت نہیں ، رہا رسول اللہ ﷺ کا سوال کہ اللہ کہاں ہے؟اور اس لونڈی کا جواب کہ آسمانوں کے اوپر ہے، اہل حق اسی پر ہیں ۔” ( التمھید لابن عبد لبر : ۸۰/۲۲)۔

    Read This:  Shirk Kya hai ?

    نیز اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
    ” اس حدیث میں لونڈی کو جو فرمانِ رسولﷺ ہے کہ اللہ کہا ں ہے؟ تو اسی پہ اہل سنت والجماعت ہیں جو کہ اہل حدیث، حدیث میں فقاہت حاصل کرنے والے راوی اور تمام ناقلین ہیں ، وہ صرف وہی بات کہتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمائی ہے: ( الرحمن علی العرش استوی) ( طٰہٰ: ۵) ، اللہ تعالی آسمانوں کے اوپر ہے اوراس کا علم ہر جگہ ہے۔ ( الاسنذ کار لابن عبد لبر: ۳۳۷/۷)

    ” رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ اللہ زمین میں نہیں ، بلکہ آسمانوں کے اوپر ہے، وہ مؤ من نہیں ہوسکتا، اگر ایسا شخص غلام ہو اور آزاد کرایا جائے تو مؤ من گردن کی آزادی میں کام نہیں دے گا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر نہیں مانتا، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ آپ ﷺ نے اس (لونڈی) کے ایمان کی نشانی ہی اس کی اس معرفتِ الہیٰ کو قرار دیا ہے کہ اللہ آسمانوں پر ہے ، آپ ﷺ کے سوال کہ اللہ کہا ہے؟ اس میں ان لوگوں کی بات کی تکذیب ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ ہے، کیونکہ جو چیز ہر جگہ موجود ہو، اسے ‘کہاں’ سے موصوف نہیں کیا جاسکتا، جس چیز سے کوئی جگہ خا لی نہ ہو، اسکے بارے میں یہ پوچھنا محال ہے کہ وہ کہاں ہے ؟ کہا ں کا سوال اسی چیز کے بارے میں کیا جائے گا، جو ایک جگہ میں ہو اور دوسری جگہ میں نہ ہو۔

    اگر بات اسی طرح ہوتی ، جس طرح یہ گمراہ لوگ دعوی کرتے ہیں تو اللہ کے رسولﷺ اس لونڈی کی بات کو غلط قرار دیتے اور اس کو سکھاتے ، لیکن اس نے اس حقیقت کو جان لیا تو اللہ کے رسول ﷺ نے اسکی تصدیق کی اور اس وجہ سے آپ نے اس کے ایمان کی گوائی بھی دی، اگر اللہ تعالیٰ آسمانوں کی طرح زمین میں بھی ہوتاتو لونڈی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہونا تھا جب تک وہ اسے زمین میں بھی نہ جان لیتی ، جیسا کہ اس نےاسے آسمانوں پر جانا تھا۔” ( الرد علی الجھعۃ للدارمی: ص ۴۶-۴۷)

    اللہ کہاں ہے؟/Allah Kahan hai
    Allah Arsh par hai 



    نیز لکھتے ہیں :
    پس اللہ کے رسول ﷺ کا اسے مؤ منہ قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر تسلیم نہیں کرتی تو وہ مؤ منہ نہ ہوتی، نیز یہ کہ مؤ من گردن کی آزادی میں وہی غلام یا لونڈی کام دے سکے گی جو اللہ ورسول کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر تسلیم کرتے۔( نقض الامام عثمان بن سعید الدارمی علی بشر المریسی: ۲۲۶/۱)
    مزید لکھتے ہیں :

    ” یہ تمام آیات اللہ تعالیٰ کے بارے میں آپ کو بتاتی ہیں کہ وہ ایک جگہ میں ہے اور وہ جگہ آسمانوں کے اوپر ہے نہ کہ زمین کے اوپر ، نیز وہ عرش پر ہے، نہ کہ کسی اور جگہ پر، یہ بات ہر شخص کو معلوم ہوجاتی ہے ، جو قرآن پڑھتاہے، اس پر ایمان لاتا ہے اور اس میں موجود اللہ تعالیٰ کے فرامین کی تصدیق کرتا ہے، اے کمزور انسان ! تو اللہ تعالیٰ پر کیسےوہ حکم لگا تا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اور اس کا رسول اپنے فرامین میں غلط قرار دیتا ہے یا تجھ کو وہ حدیث نہیں پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سیاہ لونڈی سے سوال کیا، اللہ کہا ں ہے؟ تو اس نے جواب دیا ، آسمانوں کے اوپر ، آپ ﷺ نے فرما یا، اس کو آزاد کردو، یہ مؤمنہ ہے، یہ حدیث بھی تجھ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالی ٰ آسمانوں کے اوپر ہے، زمین میں نہیں ، چنانچہ تو کیسے اللہ ورسول کے فرما نکو چھوڑ کر اس بارے میں بشر (مریسی) اور ثلجی جیسےجہمی لوگوں کی بات کو اس پر تر جیح دیتا ہے؟ ” ( النقض علی بشر المریسی : ص ۱۴۶-۱۴۵۱)

    حافظ ذہبی ؒ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں :
    ” ہماری رائے بھی ہر شخص کے بارے میں یہی ہے( کہ وہ مسلمان ہے) ، جس سے پوچھا جائے ، اللہ کہا ں ہے؟ اور وہ اپنی فطرت کے مطابق جلدی سے یہ کہہ دے کہ آسمانوں میں ہے، اس حدیث میں دو مسئلے ہیں ، ایک تو یہ کہ مسلمان کے لیے یہ پوچھنا مشروع ہے کہ اللہ کہا ں ہے؟ دوسرا یہ کہ جس سے سوال کیا جائے ، اس کا یہ کہنا بھی مشروع ہے کہ وہ آسمانوں کے اوپر ہے۔ جو شخص ان دو باتوں کاانکار کرے گا، وہ مصطفٰے ﷺ کی بات کا انکار کرے گا۔” ( العلو للذھبی : ص ۲۶)

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    حدیث نمبر2:


    ” سید نا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا ، تم میں رات اور دن کے فرشتے آتے اور جاتے رہتے ہیں ، فجر اور عصر کی نماز میں وہ اکٹھے ہو جاتے ہیں ، پھر رات کو تمہارے ساتھ رہنے والے فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ باوجود بہتر جاننے کے ان سے پوچھتا ہے، تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں ، ہم ان کے پاس گئے تھے تو وہ نماز میں مشغول تھے اور جب ان کو چھوڑ کرآئے ہیں تو اس وقت بھی وہ نماز ادا کررہے تھے۔”( صحیح بخاری : ۷۴۲۹، صحیح مسلم: ۶۳۲)

    Read This:  Dua Sirf Allah se

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    حدیث نمبر 3:


    ” سید نا عبد اللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا ، رحمٰن رحم کرنے والوں پر ہی رحم فرما تا ہے، تم اہل زمین پر رحم کرو، جو آسمانوں پر ہے ، وہ تم پر رحم فرمائے گا۔”

    ( مسند الھمید ی: ۵۹۱، مسند الامام احمد : ۱۶۰/۶، سنن الترمذی : ۱۹۲۴، سنن أبی داؤد : ۴۹۴۱، وسندۂ حسن”)
    اس حدیث کو امام ترمذی ؒ نے ” حسن صحیح ” اور امام حاکم ؒ ( ۱۵۹/۴) نے ” صحیح ” کہا ہے،اس کا راوی ابو قابوس ” حسن الحدیث” ہے، امام تر مزی اور امام ابنِ حبان ؒ وغیر ہما نے اس کی تو ثیق کر رکھی ہے۔
    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    حدیث نمبر 4:



    اللہ کہاں ہے؟/Allah Kahan hai
    The Creater of the world


    ” سید نا جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کے دن اپنے خطبئہ ( حجتہ الوداع) میں فرما یا، تم سے ( روزِ قیامت) میرے بارے میں پوچھا جائے گا، تم کیا کہوگے؟ صحابہ کرام نے جواب دیا، ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے (دین) پہنچا دیا ،(اللہ کی امانت کو) ادا کردیا اور خیر خوائی کی، آپ ﷺ نے اپنی شہادت والی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرما یا، اے اللہ گواہ ہوجا، اے اللہ گواہ ہوجا۔۔۔۔۔” (صحیح مسلم : ۱۲۱۸)


    Read this :  Nabi ﷺ ke moajjazat
    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    حدیث نمبر 5:


    سید نا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین سیدہ زینب بنت حجشؓ کہا کرتی تھیں ، میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔(صحیح بخاری : ۷۴۲۱)
    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    حدیث نمبر 6:


    “سید نا ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرما یا ، کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے حالانکہ میں اس ذات کاامین ہوں ، جو آسمانوں کے اوپر ہے، میرے پاس صبح وشام آسمانوں کی خبر آتی ہے۔“( صحیح بخاری: ۴۳۵۱، صحیح مسلم:۱۰۶۴ (

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    حدیث نمبر 7:


    ” سید نا ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کوئی آدمی ایسا نہیں ، جو اپنی بیوی کو اس کے بستر کی طرف بلائے اور وہ انکار کردے، مگر وہ جو آسمانوں کے اوپر ہے، اس( عورت) سے ناراض ہوجاتا ہے، تاآنکہ خاوند اس سے راضی ہوجائے۔( صحیح مسلم:۱۴۳۶)
    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    حدیث نمبر 8:


    ” سید نا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے، اس دوران ہمیں بارش نے آن لیا، آپﷺ نے اپنے کپڑے کو ہٹایا، حتی کہ آپ ﷺ کو بارش کا پانی لگ گیا، ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا، کیونکہ یہ بارش اپنے رب عزوجل سے نئی نئی(ابھی) آئی ہے ۔” (صحیح مسلم : ۸۹۸)

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    حدیث نمبر 9:

    اللہ کہاں ہے؟/Allah Kahan hai
    The Sovereign Loard




    ” سید نا ابوہریر ہؓ نبئ کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اگر وہ نیک ہو تو وہ کہتے ہیں ، اے پاک جان جو کہ پاک جسم میں تھی! قابل تعریف حالت میں نکل ، تیرے لیے خوشگوار و خشبو دار ہوا کے جھونکوں اور راضی ومہربان رب کی خوشخبری ہے، اسے مسلسل یہی بات کہی جاتی ہے، حتی کہ وہ جسم سے نکل جاتی ہے، پھر اسے آسمان کی طرف چڑھا یا جاتا ہے، آسمان کے دروازوں کو کھولاجاتا ہے، پوچھا جاتا ہے، یہ کون ہے؟ فر شتے بتاتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے، کہا جاتا ہے، پاک جان جو کہ پاک جسم میں تھی، اسے خوش آمدید ! تو قابل تعر یف حالت میں داخل ہو جا، تیرے لیے خوشگوار وخوشبو دار ہو ا اور مہربان رب کی خوشخبر ی ہے، اسے مسلسل یہی کہا جاتا ہے، حتی کہ اس آسمان تک پہنچادیا جاتا ہے، جس کے اوپر اللہ عزوجل کی ذات ہے۔”
    ( مسند الا مام احمد : ۳۶۴/۲، سنن ابن ماجہ : ۴۲۶۲، وسندۂ حسن”)

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    حدیث نمبر 10:


    ” عامر بن سعد اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، سعد بن معاذ ؓ نے بنی قریظہ کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا ہر بالغ مرد قتل کردیا جائے اور ان کے مال واولاد کو (مسلمانوں میں ) تقسیم کر دیا جائے ، یہ فیصلہ رسول اللہ ﷺ کو بتا یا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا، سعد نے اس اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے، جس نے آسمانوں کے اوپر یہ فیصلہ کیا تھا۔”

    (السنن الکبری للنسائی (تحفۃ الأشراف ۲۹۳/۳)، فضائل الصحابۃ للنسائی: ۱۱۹ ، المسندر ک للحاکم ۱۲۴/۲، الا سماء والصفات للبیھقی: ۱۶۲-۱۶۱/۲، وسندۂ حسن”)
    حافظ ذہبی ؒ نے اس حدیث کو” صحیح ” قرار دیا ہے، (مختصر المسندر ک للذھبی : ۱۲۴/۲)

    تلک عشرۃ کاملۃ یہ پوری دس صحیح احادیث ہیں !

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*


                🔔          📤       📥       ✍️          👍 
              Like comment save share subscribe 


    -:Conclusion


    یہ تمام احادیث اور دلائل پڑھنے کے بعد یہ صاف طور پر ظاہر ہے ہے اللّٰہ اپنے عرش پر اپنی شان کے لائق مستوی ہے.اسکی علم اور حکمت ہر جگہ ہے. اللّٰہ ہر جگہ موجود ہے یہ بات قرآن اور حدیث کے خلاف ہے. یہ غیر مسلموں کا عقیدہ ہے کی خدا ہر جگہ اور ہر ذرّے میں موجود ہے.آئندہ ایسے کلام سے بچیں.

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    -:FAQs 


    Post a Comment

    0 Comments