Breaking Tickers

Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے

Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے

Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے
Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے




پوسٹ تھوڑی لمبی ہے اگر گمراہی اور شرک سے بچنا ہے تو اسے پوری ضرور پڑھئے گا 
Waseela Kya hai ،دلائل کی روشنی میں اس کو سمجھنا بہت ہی ضروری ہے،بعض گمراہ قبر پرست, پیر پرست اس لفظ کا غلط استعمال کرتے ہیں. وسیلہ کے اصل معنی اور مطلب سے ہٹا کر عوام کو گمراہی اور شرک کی طرف لے گئے ہیں.اللّٰہ کی مسجد اور در سے دور کرکے پیر, بزرگ اور مزار دربار پر لگا رکھا ہے.


Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے
Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے




    الســـلام عــليــكــم و رحــمــة الله و بـــركـــاتـہ الحمد لله. والصلاة والسلام علىٰ رسول الله أما بعد ! آئیے پہلے یہ جانے کہ آج کے دور کے وسیلہ لینے والے اور نبی کریم ﷺ  کے دور کے وسیلہ لینے والوں کا عقیدہ کیا ہے ؟

    مشرکین عرب اور آج کے دور کے وسیلہ لینے والوں کا عقیدہ:-


    لوگوں کو جب سمجھایا جاتا ہے کہ جس کوتم ولی اللہ سمجھتے ہو اس کی قبر کے پاس پہنچ کر اس قدر خوفزدہ اور بدحواس کیوں ہو جاتے ہو کہ کبھی قبر کے پاس جھکے جارہے ہو، کبھی قبر کو ہاتھ لگا کر اس کی خاک بدن پر ملتے ہو، کبھی اس کا طواف کرتے ہو، کبھی ہاتھ باندھے اس کے پاس اپنی پریشانیاں بیان کر رہے ہوتے ہو، کبھی صاحب قبر کی دہائی دیتے ہو، کبھی نذرو نیاز اور چڑھاوے پر اتر آتے ہوں، کبھی منتیں مانتے ہو کہ اولاد ہو جائے تو یہ نذر کروں گا، بیماری چلی جائے تو یہ خدمت بجالاؤں گا : واپس ہونے لگتے ہو تو الٹے پیروں چلتے ہو کہ قبر کی طرف پیٹھ نہ ہونے پائے ، قبر کے قریب یا دور جہاں سے بھی گزرو قبر کا رخ کر کے سلام کرتے ہو اور اس میں برکت جانتے ہو اور ایسا نہ کرنے پر سخت مشکل میں پڑ جانے کا دھڑ کا تمہیں لگا رہتا ہے، اولا د ہوتو نہلا دھلا کر لاتے ہو اور فرش پر ڈال دیتے ہو، دولہا کو نکاح کے واسطے لیے جارہے ہوتے ہو تو پہلے قبر پر حاضری دیتے ہو؟ آخر یہ سب کیوں کرتے ہو؟ کیا یہ غیر اللہ کی پرستش اور پو جا نہیں ہے؟ اور کیا کسی ایک ولی اللہ نے بھی اس بات کا حکم دیا ہے؟ ولی اللہ تو نمازیں پڑھنے والے، روزے رکھنے والے، اللہ سے ڈرنے والے اور اللہ ہی کو پکارنے والے ہوتے ہیں؛ وہ یہ بات کیسے پسند کر سکتے تھے کہ تم یہ کام کرنے کے بجائے ان کو پکارو، ان سے مانگو؟

    Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے
    Waseela lene walon ka aqeedah 



    جب پوچھا جاتا ہے کی ایسا کیوں کرتے ہو تو جواب ملتا ہے کہ ہم یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں کہ ہم گناہ گار لوگ ہیں ، ہماری پہنچ اللہ کے دربار تک کہاں، اور یہ اللہ والے بزرگ تھے ہم ان کو خوش کر کے اللہ کے یہاں اپنا وسیلہ بناتے ہیں تا کہ یہ ہماری بات وہاں تک پہنچا دیں ؟ آخر دنیا میں بادشاہ تک پہنچنا ہوتا ہے تو کیا درباریوں اور وزراء کو وسیلہ نہیں بنایا جا تا ۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو عرب کے لوگ اس وقت کہا کرتے تھے جب ان کو ٹو کا جاتا تھا کہ ایک مالک کو چھوڑ کر تم دوسروں کے پاس کیوں جاتے ہو؟ اللہ تعالیٰ قرآن میں ان کا نقشہ یوں پیش فرماتا ہے:  رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سر پرست بنارکھے ہیں (وہ اپنے اس فعل کی توجیہہ یہ کرتے ہیں کہ ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں.(الزمر:٣) اور کبھی یوں کہتے ہیں کہ:   یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔(سورة يونس : ۱۸). بلکل یہی عقیدہ آج کے دور کے بزرگ پرست,پیر اور قبر پرستوں کا ہے.
     
    آئیے اب آگے بڑھتے ہیں وسیلہ کی طرف کہ اصل میں وسیلہ ہے کیا ؟
     لفظ وسیلہ عربی اور اردو دونوں میں استعمال ہوتا ہے مگر دونوں کے معنی میں زمین و آسمان کا فرق ہے. 

    وسیلہ کا مطلب:-

    Waseela Kya hai وسیلہ ایک عربی لفظ ہے جس کا مطلب  "ذرائع" یا "راستہ"ہے۔ اسلامی سیاق و سباق میں وسیلہ سے مراد وہ ذریعہ ہوتا ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قریب پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔قرآن مجید میں وسیلہ قرب کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اردو لغت میں یہ با معنی ذریعہ اور واسطے کے استعمال ہوتا ہے.اسلامی تعلیمات کے مطابق، نیک اعمال، قرآن پاک کی تلاوت، نبی اکرم ﷺ اور صحابہء کرام کا ذکر و یاد، تمام فرائض کو پورا کرنا یہ سب وسیلہ بن سکتے ہیں اللہ کی رحمت اور مغفرت کے طلبگار ہونے کے لئے۔ 

    بعض افراد لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس کا اردو والا معنی لیتے ہیں یعنی اللہ کی جانب ذریعہ تلاش کرو چنانچہ وسیلہ کے یہ مفہوم سلف و اکابریں سے ثابت نہیں ہے اس کی تفسیر مجاہد، ابو وائل، عطا رحم اللہ علیہم نے "تقرب الی اللہ" کی ہے اور قتادہ فرماتے ہیں “ اللہ کا تقرب اس کی فرمابرداری اور پسندیدہ عمل سے حاصل کرو،(تفسیر طبری جلد ٤ ص ٥٦٧ سورہ المائدہ ٣٣)

     چنانچہ اکابرین سے اس کے معنی تقرب فی العمل و اطاعت ہے اور اس کے معنی ذریعہ اور واسطہ سلف اور اکابرین سے ثابت نہیں ہے، اس مختصر سی وضاحت کے بعد ہم ان صورتوں کی جانب چلتے ہیں جو قران اور صحیح حدیث میں وسیلہ کے بارے میں بیان ہوئی ہیں اور یہ وسیلہ کی وہ صورتیں ہیں جن کو اسلام نے جائز رکھا ہے۔:

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    قرآن حکیم میں وسیلہ کا مطلب:-

     
    Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے
    Qur'an me Waseela  


    قرآن کی یہی وہ آیت ہے جس کا غلط ترجمہ اور تشریح بتا کر عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے اور شرک کا دروازہ کھولا جاتا ہے . قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے

     یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ وَ جَاہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ

    اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو ،  اور اس کے راستے میں جہاد کرو ۔  امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی ۔(35: سورة المائدة )

    قرآن مجید کی اس آیت میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی نجات کے لئے وسیلہ یعنی قرب,(اللّٰہ تک پہنچنے کا ذریعہ) تلاش کرنے کا حکم دیا ہے اِس میں اللہ تعالٰی نے نجات کے لئے 3 باتوں کا حکم دیا ہے
    تقویٰ اختیار کرنا, وسیلہ یعنی قرب تلاش کرنا اور اللّٰہ کی راہ میں جہاد کرنا.
    تقویٰ اور جہاد میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے .وسیلہ کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہے.کُچّھ لوگ کہتے ہیں یہاں وسیلہ سے مراد انبیاء, اولیاء, صلحاء, شہداء اور قبروں میں دفن شدہ بزرگ اور پیر وغیرہ کا وسیلہ ہے.
    یہ اچھی طرح سمجھنے والی بات ہے کہ قران مجید کی جس آیت میں وسیلہ یعنی قرب کو تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد غیر حاضر يا فوت ہوئے انبیاء, اولیاء ,شہداء پیر بزرگ تو ہرگز نہیں ھیں
    کیونکہ قرآن اور سنت کی روشنی میں اسکی کوئی دلیل نہیں ہے اور قرآن کی آیتوں اور حدیث سے وسیلہ کا مطلب کُچّھ اور ہی ہے یعنی اللّٰہ کے قریب جانے کا ذریعہ جس کی وضاحت آگے آئیگی ان شاء اللہ.

    قبر پرستوں کا اعتراض:-

    کُچّھ قبر پرست یہ کہتے ہیں کی آپ وسیلہ کے منکر ہے تو آپ بغیر وسیلہ کے کیسے پیدا ہوئے.
    ٹھیک ہے آپ کی بات مانتا ہوں. تو یہ بتائیے کہ کیا آپ کو اللّٰہ کی قدرت پر شک ہے کہ انسان بغیر وسیلہ کے پیدا نہیں ہو سکتا تو یہ بتائیے! آدم علیہ السّلام, ماں حوّا اور عیسیٰ علیہ السّلام کیسے پیدا ہو گئے ؟ اور صالح علیہ السّلام کی اونٹنی کیسے پیدا ہوئی.اب یہاں تو کسی کا وسیلہ نہیں لگا. میرے رب نے اپنی قدرت سے بغیر وسیلہ کے بھی انسان اور جانور کو پیدا کر دکھایا.اور آپ جیسے گمراہی میں مبتلا لوگ اللّٰہ کی قدرت پر شک کرتے ہیں.اب یہاں آپ کیا بولئےگا ؟ اب بھی آپ کو شک ہے کی اللّٰہ بغیر وسیلہ کے نہیں سنتا یا بغیر وسیلہ کے کُچّھ نہیں کر سکتا ہے. سوچیئے اور اپنا عقیدہ درست کیجئے.

    جائز وسیلہ کیا ہے؟

    وسیلہ لیجئے وسیلہ تو دعا کے قبولیت کا ذریعہ ہے لیکن وہ وسیلہ لیجئے جو  شرعاً جائز ہیں.جائز وسیلے کی تین اقسام ہیں.

    Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے
    Jaaiz waseela 


      1:- دعا میں اللہ کے پیارے ناموں کا وسیلہ جیسے یا اللّٰہ ! تُجھے تیری رحمت کا واسطہ, ہمارے حال پر رحم فرما.
      2:-اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنانا جیسے قرآن میں یوں بیان ہوئی ہے : وہ لوگ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں,لہٰذا ہمارے گناہ معاف کر دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے.
      3- کسی زندہ نیک شخص سے دعا کروائی جائے ,اس کی دلیل صحیح بخاری میں موجود وہ روایت ہے جس میں حضرت عمر کی حضرت عباس سے دعا کروانے کا ذکر ہے اور قرآن میں ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر لیں آپ کے پاس آجاتے اور اللّٰہ سے استغفار کرتے اور رسول بھی اُنکے لئے استغفار کرتے.

    جبکہ وسیلے کی جو شکل ہمارے معاشرے میں رائج ہے وہ بلکل باطل اور حرام ہے اور مشرکین عرب بھی اسی قسم کے وسیلے کے قائل تھے جیسے اس آیت میں اللہ کا فرمان ہے :-
    خبردار اللہ تعالیٰ ہی کے لیےٴ خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں ( اور کہتے ہیں ) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیےٴ کرتے ہیں کہ یہ ( بزرگ ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبے تک ہماری رسایٴ کرادیں یہ لوگ جس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں اس کا ( سچا ) فیصلہ اللہ ( خود ) کرے گا ۔ جھوٹے اور ناشکرے ( لوگوں ) کو اللہ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا ۔ (سورہ الزمر:3)

    Telegram Group Join Now


    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*
     
    اب ذرا وضاحت کے ساتھ تینوں جائز وسیلوں کو دیکھتے ہیں

    (1)اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ اور صفات کا وسیلہ:

     
      ❄︎اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو اسے ان سے پکارو اور انہیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے نکلتے ہیں وہ جلد اپنا کیا پائیں گے ،(سورہ العراف:180) 

     ❄︎ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ان سے کہو ، اللہ کہہ کر پکارو یا رحمان کہہ کر ، جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے نام ہیں ۔ (سورہ الاسراء:110)
    اللہ تعالیٰ سے اس کے اسماء حسنیٰ کے وسیلہ سے دعا کرنا درست ہے جیسا کہ اوپر آیت میں ذکر ہے جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے نبیﷺ سے دعا کا پوچھا تو آپﷺ نے یہ دعا پڑھنے کا کہا:
    اے اللہ ! یقیناً میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ۔پس تو اپنی خصوصی بخشش کے ساتھ میرے سب گناہ معاف کردے او رمجھ پر رحم فرما، بے شک تو ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کو وسیلہ بنایا گیا۔(صحيح بخاری:834)
     اللہ کی صفات کے ساتھ وسیلہ:-
    .’’اے اللہ میں تیرے علم غیب او رمخلوق پر قدرت کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے مجھے حیات رکھ او رجب تیرے علم کے مطابق میرا مرنا بہتر ہو تو مجھے وفات دے دے۔‘‘اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفات، علم او رقدرت کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔(سنن النسائی :1306)

    2:-اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنانا:-


    آپ ﷺ نے فرمایا ، تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی ۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی ۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی ( اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے ) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو ، نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو ۔پھر پہلے نے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ تو پتھر کُچّھ ہٹ گیا,پھر دوسرے نے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دیا تو پھر وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا اور آخر میں تیسرے نے جب اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دیا تو پھر چٹان ہٹ گیا وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آ گئے.(صحیح البخاری:2215)


    3۔ نیک اور زندہ آدمی کا وسیلہ:-

     ایسے آدمی کی دعا کو وسیلہ بنانا کہ جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔احادیث میں ہےکہ جب نبی کریم ﷺ  حیات سے تھے اور قحط پڑا تب صحابہ کرام بارش کے لئے آپؐ ﷺ  سے دعا  کرواتے تھے۔(صحيح بخاری :933)
    جب تک نبی کریم ﷺ  حیات سے رہیں تب تک صحابہء کرام نے آپ ﷺ  سے دعا کروائی لیکن جب آپ ﷺ  فوت ہو گئے تب کوئی بھی صحابہء کرام آپ ﷺ  کے قبر مبارک پر دعا کے لیے نہیں گئے آئیے دلیل دیکھیں.
    حضرت عمرؓ کے دور میں جب قحط سالی پیدا ہوئی تو لوگ حضرت عباسؓ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ حضرت عمر اس موقع پر فرماتے ہیں:«اللهم إنا کنا نتوسل إليک بنبينا فتسفينا وإنا نتوسل إليک بعم نبينا فاسقنا»(صحيح بخاری:1010)
    جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی ﷺ کا وسیلہ لایا کرتے تھے ۔ تو ، تو پانی برساتا تھا ۔ اب ۔(رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہم میں موجود نہیں)  ہم اپنے نبی کریم ﷺ کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو ، تو ہم پر پانی برسا ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی. 


     Note
    :- اس واقعے سے صحابہ کرام کا طرز عمل واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ  کے وفات کے بعد کبھی بھی اُن کو مدد کے لیے نہیں پکارا۔ ان سے استغاثہ نہیں کیا۔ ان کا واسطہ نہیں دیا۔ بلکہ نیک و معتبر ہستی کو لا کر شرعی وسیلہ پیش کیا ۔ اب آپ بتائیں اگر امام الانبیا ﷺ  کے وفات کے بعد سے وسیلہ لینے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے تو بھلا  ایسی کون سی شخصیت ہے جس سے کوئی امید وابستہ کی جائے.
     اوپر پیش کی گئی عبارت میں ہم نے تین طرح کے وسیلے جو کہ مشروع ہیں ذکر کئے ہیں۔ اوّل الذکر اللہ کی صفات و اسماء کے ساتھ,دوسرا نیک اعمال اور آخری الذكر اس کی مخلوق کا وسیلہ ہے، لیکن اس میں بھی اس سے دعا کروانا ہے اور حضرت عمرؓ کو آپؐ کے چچا عباس سے وسیلہ کے طور پر دعا کروانا اور یہ اقرار کرنا کہ ہم پہلے نبیؐ سے دعا کرواتے تھے اور اب ا ن کے چچا سے کروا رہے ہیں یہ ثابت کرتا ہےکہ
    (1) صحابہ فوت شدہ کو وسیلہ نہیں بناتے تھے۔(2) وسیلہ اس نیک اور زندہ شخصیت سے محض دعا کروانا ہے۔آپؐ کی وفات کے بعد سے یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کی دعا ردّ نہیں ہوتی اور ان کا وسیلہ اور واسطہ دینا، شرعاً درست نہیں۔ کیونکہ فوت شدہ کا وسیلہ قرآن و حدیث اور صحابہ سے ثابت نہیں لہٰذا فوت شدگان کا وسیلہ بنانا حرام ہے او رناجائز ہے۔

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    وسیلے کی حقیقت اور اسکا طریقہ

    Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے
    Nek logon ka Waseela 



    زندہ بزرگوں سے دُعا کروانا جو کہ شریعت کے پابند ہوں نہ کہ ایسوں سے جنہوں نے وسیلے کی دُکانیں سجا رکھی ہیں اور شرک و بدعت کے داعی ہوں۔ دُعا دوسرے سے کروانی بھی اسی صورت میں مفید ہے جب آپ خود بھی کریں اور اللہ کا اذن بھی ہو۔ جو بزرگ فوت ہو جائیں وہ خود ہماری دعاء کے محتاج ہیں اور ان کے لئے تو ہم زندوں کو دعاء کرنی چاہیے۔ خود دُعا کریں اور زندہ نیک بزرگوں سے دُعا کروائیں یہ عقیدہ درست ہے یہ صحابہ کرام میں بھی تھا۔
       جب قحط پڑتا تو حضرت عمر حضرت عباس کے وسیلے سے بارش کی دُعا کرتے اور اللّٰہ دعا قبول کرتا اور بارش ہوتی.(بخاری)

     ذرا سوچیں ! نبی کی قبر مدینے میں موجود تھی۔ اگر ان کی قبر پر آپ ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگنے کا عقیدہ صحابہ میں ہوتا تو وہ ضرور آپﷺ  کی قبر پر حاضر ہو جاتے۔ حضرت عمر نے آپﷺ  کے وسیلے سے دعا نہیں کی کیونکہ آپﷺ  اُن میں موجود نہ تھے۔ آپ ﷺ کو مدد کے لئے نہیں پکارا۔ بلکہ حضرت عباس اور صحابہ کرام نماز پڑھی اور دُعا فرمائی ۔ حضرت عمر نے نہ آپ کو پکارا، نہ آپ کا وسیلہ اختیار کیا نہ اس غرض سے آپ کی قبر پر گئے تو یہ قبر پرستی اور فوت شدہ کے وسیلے کا عقیدہ آج کے مسلمان نے کہاں سے لے لیا ؟ اگر فوت شدہ سے وسیلہ لینا جائز ہوتا تو یہ بتائیے نبی کریم ﷺ  سے بڑھ کر فضیلت والی ذات کون سی ہے جس کا مرنے کے بعد دعا میں وسیلہ اختیار کیا جائے.

    تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں


    حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، لہذا مجھ ہی سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں پہناؤں ، پس تم مجھ ہی سے لباس مانگو میں تمہیں (لباس) پہناؤں گا۔ ( صحیح مسلم) 
    اور تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ تم دعا مجھ سے مانگو۔ میں تمھاری دعاؤں کو قبول کروں گا ، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“
    آیت صاف بتا رہی ہے کہ دعا عبادت ہے جو اللہ ہی کا حق ہے۔ دعا نہ مانگنا تکبر ہے اور نہ مانگنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
    گویا دعا اس طرح نہ مانگو کہ عہد وفا کسی مزار سے بھی باندھ رکھا ہو اور دعا رسمی طور پر اللہ تعالیٰ سے بھی مانگ رہے ہو۔ یقین جانو اللہ تعالیٰ کو تو اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی محبت ہے۔ بندوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس کی اور اس کے رسولﷺ  کی اطاعت کریں تاکہ فلاح پائیں.

    اللّٰہ تک پہنچنے کا وسیلہ:-

    اللّٰہ سُبحَانَ و تعالیٰ فرماتا ہے 
    1:-  اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے .(سورة البقرة:82)

    2:- رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو کر رہے ، تو یقیناً وہ جنتّی لوگ ہیں اور جنّت میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ (سورة هود:23)

    3:-  البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، ان کی میزبانی کے لیے فردوس  کے باغ ہوں گے .(سورة الكهف:107)

    4:- پھر جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے مغفرت ہے اور عزت کی روزی ۔ (سورة الحج:50)

    5:- البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں ، ان کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں .(سورة لقمان:8)

    قرآن مجید کی ایسی بہت ساری آیت ہیں ہیں جن میں دخول جنت کے لئے صرف دو ہی چیز کا ہمیں ذِکر ملتا ہے
    1:- ایمان
    2:- نیک عمل
    جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ وسیلہ یعنی قرب ہے جسے اللہ تعالٰی نے تلاش کرنے کا حکم دیا ہے.کسی بھی آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ کسی انبیاء, اولیاء, صلحاء, شہداء اور قبروں میں دفن شدہ بزرگ اور پیر وغیرہ کا وسیلہ لیا جائے.بلکہ ایمان اور نیک اعمال کا کہا گیا ہے.

     

    سب سے بڑا وسیلہ

    عمل صالح اور دعا سے بڑھ کر کوئی وسیلہ نہیں آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ آپ اللہ کے فرمانبردار ہوں ، اس کے احکام پر عمل کریں ، اس سے محبت کریں اور وہ آپ کی نہ سنے۔ وہ آپ کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے (معاذ اللہ ) ۔ اس سوچ کا ہونا بھی گناہ عظیم ہے۔ بس ہم سب اپنی بداعمالیوں اور گناہوں سے بھری زندگی کو چھوڑ اس ایک اللہ کو پکار کر تو دیکھیں
     ابو ہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی رحمت العالمین ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ سے دعا نہ مانگے اللہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ (ترمذی)
    قرآن کی ایک آیت میں ہی اللّٰہ نے اپنے بندوں سے سوال کیا ہے.ارشاد باری تعالی ہے: " کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ؟ (الزمر (36)
    اللہ تعالی کے اس سوال کا آپ کے پاس کیا جواب ہے سوال ان لوگوں کی عقل کو دعوت فکر دیتا ہےجو اللہ تعالیٰ کا در چھوڑ کر ادھرادھرکی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ ہے کسی کے پاس اس کا جواب تو جواب دے.
       اور سوچنے والی بات ہے کہ اللہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو جو قریب ہے اسکے لئے وسیلہ کیوں ؟
      اور اللّٰہ فرماتا ہے :ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے دل میں کیا کیا خیالات پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ (ق 16/5)
     افسوس ان بے شعور انسانوں کی ناسمجھی پر کہ شہ رگ سے قریب اور دل کے خیالات کو جاننے والے کو بھول کر ان لوگوں کی طرف مائل ہیں جن کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے کہ وہ زندگی میں بے بس تھے.وفات کے بعد بے خبر ہیں اور قیامت کے دن اُنکی عبادت کا انکار کر دینگے
    لوگوں اللہ سے مخاطب ہونا سیکھو۔وہ صاحب اقتدار ہےمجبور نہیں۔وہ سہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے دور نہیں۔اُسکا علم مکمل ہے دوسروں کی طرح نا مکمل اور ادھورا نہیں۔اس کو زوال کمزوری اور موت نہیں بلکہ وہ زندہ ہے اسکے سوا کوئی قابلِ عبادت نہیں۔پس اس کو خالص کرکے پکارو اور اسی کی عبادت کرو ۔سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے (مومن 65/40)

    بتوں سے تُجھکو امیدیں خدا سے نا اُمیدی 
    مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

     اذان کے بعد دعا میں وسیلہ کا غلط مطلب لینا

     
    Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے
     Azan me Nabi  ka waseela 


    حدیث میں بھی لفظ وسیلہ کا استعمال ہوا ہے جس کا معنی مطلب بھی یہ دیں فروش غلط بتا کر عوام کو گمراہی اور شرک کی طرف ڈھکیل رکھا ہے اور اللّٰہ کا در چھوڑا کر پیروں اور بزرگوں کا در پکڑا رکھا ہے اور شرک میں ملوث کر رکھا ہے. آئیے اس حدیث کو دیکھیں.
    " عبد اللہ بن عمر و ابن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم اذان دینے والے کو اذان دیتے ہوئے سنو تو وہی کلمات کہو جو وہ کہہ رہا ہو، پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے؛ پھر اللہ تعالی سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو۔ کیونکہ یہ وسیلہ جنت کا وہ مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں صرف ایک بندے کے لائق ہے اور مجھے امید ہے کہ میں وہ بندہ ہوں ۔ 
    اور بخاری کی روایت یوں ہے: جابر بن عبد اللہ ناروایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : جس نے اذان سن کر یہ کہا کہ اے اللہ ! اس پوری پوری پکار کے رب اور ہمیشہ باقی رہنے والی نماز کے مالک ! عطا فر ما محمد (ﷺ) کو وسیلہ اور فضیلت اور مبعوث فرما ان کو اس مقام محمود پر جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، (تو ) ایسے کہنے والے کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔ (بخاری: کتاب الاذان، جلدا صفحه ۸۲) پس معلوم ہوا کہ وسیلہ سے مراد جنت میں ایک بلند مقام اور قرب الہی ہے اور اس سے کسی کی ذات کو اللہ کے حضور وسیلہ بنانا مقصود نہیں ۔ 
    یہ حدیث تقریباً سیاح ستہ کی ہر کتاب باب الاذان میں کمی بیشی کے ساتھ پائی جاتی ہے.
    جن لوگوں نے وسیلہ کے نام سے بزرگان دین کی استعانت اور انبیاء اور اولیاء سے استغاثہ جائز کر رکھا ہے، انہوں نے قرآن کے لفظ وسیله (بمعنی قرب) کواردو کے لفظ وسیلہ ( یعنی ذریعہ) کا مترادف سمجھ لیاہے، حالانکہ قرآن وحدیث سے یہ ثابت ہے کہ وسیلہ سے مراد تقرب اور جنت میں ایک بلند ترین مقام کا نام ہے۔ 

    غور کرنے والی بات:-  اب آپ خود فیصلہ کریں کہ یہاں اس حدیث میں جس وسیلہ کا ذکر ہے اسکا معنی مطلب خود نبی اکرم ﷺ نے بتا دیا کہ وسیلہ جنت میں ایک بلند ترین مقام کا نام ہے جو نبی کریم ﷺ  کو عطا کی جائےگی. تو پھر یہ پیر پرست,قبر پرست کیسے سمجھ لئے کے اس وسیلہ کا مطلب انبیاء, اولیاء, پیر اور بزرگ ہیں. کُچّھ تو اللّٰہ کا خوف کریں. کیا جواب دینگے اللّٰہ کو جو آپ جیسوں کے ذریعہ عوام گمراہی اور شرک کی طرف جا رہی ہے.


    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    اللّٰہ تک پہنچنے کے لئے دنیاوی مثال دینا جہالت ہے :-

    کُچّھ جاھل لوگ اللہ تعالی کیلئے افسران ,جج, وکیل یا وزیر اعظم وغیرہ کی مثالیں دیتے ہیں یہ جہالت ہے اور کُچّھ نہیں
     ایسے جاھل اور گمراہ لوگوں کا کہنا ہے کہ الله تعالی تک پہنچنے کیلیے وسیلہ ضروری ہے.
    جیسا کہ چھت پر چڑھنے کیلیے زینہ یا سیڑھی ضروری ھے "۔۔
    ڈی سی, جج یا  وکیل وغیرہ سے ڈائریکٹ نہیں مل سکتے اُن سے  ملنے کے لئے کسی نہ کسی سے ملنا ضروری ہے یعنی کسی کا وسیلہ واسطہ ضروری ہے.
    میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ لوگ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لیے اتنی بوگس دلیلیں کہاں سے لے آتے ھیں؟  کہ الله تک پہنچنے کے لئے  انسانوں کی طرح وسیلہ کی ضرورت ہے.  (العیاذ بالله)۔
    ان دین فروش ملاؤں کے نزدیک بس کچھ نہ کچھ بکنے کا نام دلیل ہے۔
    اگر انہیں دین کا علم ہوتا یا قرآن پڑھے ہوتے تو جاہلوں کی طرح  نہ بات ہی کرتے اور نہ مثال ہی دیتے کیوں کہ قرآن میں اللہ کا کھلا فرمان ہے 
    اللّٰہ سُبحَانَ و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:- 
    لوگو! تم اللہ تعالی کے لیے مثالیں نہ دیا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔ (سورہ النحل : 74) 
    وسیلے اور سفارش کی آڑ میں اکثر ہمیں یہ مثال دی جاتی ہے: عام طور پر کچھ لوگ اللہ کے بارے میں مثالیں پیش کرتے ہیں کہ جج کے پاس جانے کے لئے پہلے وکیل سے ملنا پڑتا ہے افسر کے پاس جانے کے لئے پہلے کلرک سے ملنا پڑتا ہے چھت پر چڑھنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے پاس بھی بندہ براہ راست نہیں جاسکتا وہاں اللہ کے نیک بندوں کا واسطہ دینا پڑتا ہے جبکہ قرآن کی آیات اور احادیث مبارکہ ان تمام غلط اور من گھڑت عقیدوں کی نفی کرتے ہیں ۔ خدارا ! اس طرح کی باتیں بنا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھیں اور ان بناوٹی مذہبی لٹیروں کے جال میں نہ پھنسیں۔
      چونکہ جج ,وکیل یا ڈی سی ان کو ہمارا حال معلوم نہیں ہے اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ ہم انکے دروازے پر آئے ہیں یا کھڑے ہیں اس لئے انہیں وسیلہ کی ضرورت ہے جبکہ اللّٰہ تو سب جانتا ہے. اللّٰہ تو ہمارے دلوں کےحال سے بھی اچھی طرح واقف ہے اسی لئے اللّٰہ کو کسی وسیلے کی ضرورت نہیں ہے.

     اللہ تعالیٰ کا در مت چھوڑیے۔ ایسے فقیر بن کر اس کی چوکھٹ اس طرح تھام لیجیے کہ آپ کو اس کا بندہ ہونے کا یقین ہو جائے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ اس یقین کے ساتھ اللہ سے دعا مانگو کہ وہ ضرور قبول ہوگی۔ جان رکھو کہ اللہ غافل دل, کھیلنے والے کی دعا قبول نہیں کرتا۔ (جامع الترمزی )

    اللہ تعالی کے لیے مثال بیان کرنا جہالت ہے اور کچھ نہیںیہ تمام مثالیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے مثالیں بیان کرنے سے منع کر دیا . اب جس چیز سے اللہ نے منع کردیا ہے ہم اس کو کس طرح جائز سمجھ سکتے ہیں ۔ ویسے بھی یہ مثالیں اللہ کے لائق نہیں ہیں کیونکہ خود اللہ نے فرمایا:
      " آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (وہی ہے) اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کے جوڑے بنائے اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے (اور) اسی طریق پر تم کو پھیلاتا رہتا ہے اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ دیکھتا اور سنتا ہے (سورہ شوری آیت ۱۱)

    جب اللہ کی مثل کوئی چیز ہے ہی نہیں تو پھر ہم کس طرح اللہ کے لئے مثالیں بیان کر سکتے ہیں ؟

    دنیاوی مثال کی قرآن سے رد:-


    ارے چھت پر چڑھنے کے لئے سیڑھی اس لئے ضروری ہے کہ چھت ہے وہاں ۔۔ اور میں ہوں یہاں ۔ میں نے یہاں سے وہاں جانا ہے بغیر سیڑھی کے نہیں جا سکتا کیونکہ چھت دور ہے ۔۔
    اور جس رب کو تُو نے چھت سے مثال دی ھے وہ رب تو کہتا ہے کہ وہ رب تو تمھاری شہ رگ سے بھی ذیادہ قریب ہے ۔(سورة ق 16)
    ڈی سی کو ملنے کے لئے کلکرک کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کیونکہ ڈی سی درخواست دینے والوں کے حالات سے واقف نہیں ہوتا !!
    اور جس رب کو تم ڈی سی سے مثال دینے لگے ہو وہ کہتا ہے  ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں ، اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ 
    ارے ڈی سی نے اپنے گھر کے باہر لکھا ہوا ہے بغیر اجازت اندر آنا منع ہے۔
    اور الله نے کہہ دیا ہے ۔۔
    اور(اے پیغمبر) جب آپ سےمیرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو میں نزدیک ہوں،دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے پھر چاہیئے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ (سورۃ البقرہ 186)
    ڈی سی تھک جاتا ہے ۔۔۔ ڈی سی سو جاتا ہے ۔۔ چھت ایک عارضی چیز ہے ۔۔ کمزور ہے ۔۔
    جبکہ الله نے آیت الکرسی میں فرما دیا :
    (الله کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند، الله کو ظاہر و باطن سب کچھ معلوم ہے۔ الله کبھی تھکتا نہیں) ترجمہ آیت الکرسی ، (سورة بقرہ آیت :255)
    الله (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا، اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب اسی کا ہے کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
    اللّٰہ کے لئے مثالیں بیان نہ کریں.الله سبحانہ و تعالی سب کو ضد سے بچائے اور ہدایت کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
    آمین یارب العالمین،،

    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    اللّٰہ کہتا ہے میں تو بلکل قریب ہوں:-

    Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے
    Allah bilkul qareeb hai



    ایسے ہی اللّٰہ کے دربار تک دعاؤں کا پہنچانے کا مسئلہ نبی اکرم ﷺ  کے سامنے بھی لایا گیا تھا اور کہا جا رہا تھا کی کیا ہماری بات براہ ِراست اللّٰہ کے دربار تک پہنچ سکتی ہے اور کیا بغیر وسیلے کی ہماری دعائیں سنی جا سکتی ہے ؟ تب پرور دگار عالم نے قرآن میں اس کا جواب ارشاد فرمایا: جو کہتے ہیں اللّٰہ تک پہنچنے کے لئے وسیلہ ضروری ہے وہ اس آیت پر دھیان دیں اور اپنا عقیدہ درست کریں.
    اے نبی ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہوں ، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کو قبول کرتا ہوں ۔ تو انہیں چاہئے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راہ پر آئیں ۔ (سورۃ البقرہ: 186)
    تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (سورۃ مومن : 60)
    Note:- کسی قدر ناداں ہیں وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں کہ اللہ ان کی نہیں سنتا۔ یہ ایک ایسا جرم ہے کہ اللہ کو غضب ناک کرتا ہے۔ اللہ سمیع و علیم ہے سنتا ہے مگر کوئی پکارنے والا تو ہو۔ اس آیت میں تو کہیں وسیلہ کا ذکر نہیں ہے اللّٰہ خود سیدھا بندے کے دعا یا پُکار سننے کے لئے تیار ہے.


    کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟


    رسول اکرم ﷺ  نے فرمایا " جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا بزرگ و برتر پروردگار آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے۔کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش چاہے اور میں اسے بخش دوں. (صحیح البخاری )

    Note:- کیا اب بھی ہم سہاروں اور وسیلوں کی تلاش میں بھٹکتے رہینگے اور خالق سے نہ مانگیں گے.جبکہ خالق خود آسمانِ دنیا پر نازل ہو کر اُنکے دعا, پُکار سننے اور دینے کے لیے تیار ہے.یہاں تو کسی وسیلے کا ذکر نہیں.
    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*

    صرف اللہ سے مدد

      ❄︎نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ: در حقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (احزاب : ۲۱)

       ❄︎غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کی تعداد ایک ہزار تھی اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی صرف تین سو تیرہ ۔ اس صورتحال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی وسیلے کے براہ راست صرف اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے دعا فرمائی تھی اور کہا تھا کہ ” آج اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو قیامت تک تیری عبادت نہ کی جائے گی"
     اللہ نے اپنے پیارے محبوب کی دعا قبول کی اور فرشتے نازل فرما کر مسلمانوں کی مدد کی ۔۔

    اس حدیث میں نبی کریم ﷺ  نے بغیر کسی وسیلے کے صرف اللہ کو ہی مدد کے لئے پکارے.تو آپ کیوں غم و پریشانی میں کسی کا وسیلہ لیتے ہیں سیدھا اللّٰہ سے مدد کیوں نہیں مانگتے.

      ❄︎حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے ہر شخص کو اپنی تمام ضرورتیں اپنے رب سے مانگنی چاہئیں حتیٰ کہ جب اس کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اس کے بارے میں بھی اسی سے سوال کرنا چاہیے ۔‘‘ ، رواہ الترمذی (۸ / ۶۰۴) ۔مشکوٰۃ:2251)
    ذرا غور و فکر کریں:-  اب ذرا غور کریں کی جوتا کا تسمہ ٹوٹنے پر اللہ تعالیٰ سے ہی سوال کرنا یا مانگنا ہے یہاں تو کسی وسیلے کا ذکر نہیں ہے تو پھر آپ کدھر بھٹک رہے ہیں.


     وسیلہ پکڑنے والوں کی ناسمجھی:-

     
    Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے
    Waseela Kya hai/وسیلہ کیا ہے


        یا غوث (بغیر وسیلہ کے)
        یا اللہ (اس کیلئے وسیلہ ؟)
        زندہ رب جس کو کبھی موت نہیں آتی اس کیلئے وسیلہ اور جو فوت ہوگئے ان کو بغیر وسیلے کے پکارتے ہیں اس لیے شرک کو اللہ نے ظلم عظیم کہا۔

    اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بارے میں فرماتا ہے:
    جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔[البقرة:186]

    💡 خالص اللہ کو پکارنے والوں کیلئے اللہ سبحانہ وتعالی نے فَاسْتَجَابَ لَكُمْ (پھر اللہ نے تمہاری سن لی)اور فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ (پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی) کہا۔ بلکہ پورے قرآن میں انبیاء علیھم السلام کے قصوں میں ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ انہوں نے ہر مشکل گھڑی میں اللہ کو پکارا !
    💡 جن ہستیوں کو اللہ کے علاوہ پکارا جاتاہے اللہ تعالی نے مختلف مقامات پر ان کیلئے لاَ يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ (وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے) اور وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ (اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے) اور لاَّ يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ (جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں) کہا۔

    💡 غیر اللہ کو پکارنے والے کی ستم ظریفی اور گستاخی تو دیکھیں جو رب ڈائریکٹ سنتا ہے، قبول کرتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اس کیلئے وسیلہ اور جن کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ سن نہیں سکتے بلکہ اگر سن بھی لیں تو قبول نہیں کرسکتے ان کو ڈائریکٹ پکارا جاتا ہے !


    نبی کے پاس بخشش طلب کرنا:-


       وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾ (النساء 64:4)
    ”اور (اےنبی !) اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو آپ کے پاس آئیں، پھر اللہ سے معافی مانگیں اور ان کے لیے اللہ کا رسول بھی معافی مانگے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحیم پائیں گے۔“تبصرہ : اس آیت مبارکہ سے تو یہ ثابت ہو رہا ہےکہ گناہ گار لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ خود اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی کی سفارش کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا۔ 
     
    دھیان دیں:- ہم بتا چکے ہیں کہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا تو مشروع وسیلہ ہے۔ اس میں کسی کو کوئی اختلاف ہی نہیں۔ اس آیت کریمہ میں فوت شدگان کا وسیلہ پیش کرنے سے متعلق کوئی دلیل نہیں۔ یہ آیت کریمہ تو ہماری دلیل ہے جو وسیلہ کی مشروع صورت پر مبنی ہے، نہ کہ ان لوگوں کی جو وسیلہ ’’بالذوات و بالاموات ‘‘ کے قائل و فاعل ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والا یہ معاملہ تو آپ کی زندگی تک محدود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحابہ، تابعی یا ثقہ امام نے آپ کی قبر مبارک پر آ کر آپ سے سفارش کرنے کی درخواست نہیں کی۔ صدیوں بعد بعض لوگوں نے یہ بدعت گھڑلی

    بعض لوگوں کا آیت کریمہ سے اپنا من مانا مفہوم نکالنا باطل ہے۔ قبر رسول پر جا کر معافی کی درخواست کرنا بدعت ہے۔ اگر یہ دین ہوتا تو سلف صالحین ضرور اس کو اختیار کرتے، کیونکہ وہ خیر و بھلائی کے بڑے حریص تھے


                    👍🏽          ✍🏻          📩           📤              🔔
              Like    comment   save    share    subscribe 



    Conclusion:


     Waseela Kya hai آپ سمجھ گئے ہونگے. المختصر ! وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ ' اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو ' کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں ' وسیلہ جو قربت کے معنی میں ہے تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں، اسی طرح جن باتوں سے روکا گیا ہو ان کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لئے آپ نے فرمایا جو اذان کے بعد میرے لئے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔
    اللہ تعالی ہمیں توحید پر زندہ رکھے، توحید پر موت دے، اور قیامت والے دن موحدین کے ساتھ اٹھائے۔ آمین یا ربّ

    FAQs:


    Que 1: وسیلہ کیا ہے؟ 

    Ans: وسیلہ ایک ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ تک رسائی یا قرب حاصل کیا جاتا ہے، جیسے اپنے نیک اعمال اور فرائض کی پابندی کرکے اللّٰہ کا قرب حاصل کرنا.

    Que 2: کیا وسیلہ کا استعمال شرک ہے؟

     Ans : نہیں، اگر وسیلہ الله تعالى کي مقرر کردہ حدود کے اندر یعنی جائز اور مشروع وسیلہ کا استعمال کيا جائے تو شرک نہيں ہوتا. البته، الله تعالى کي ذات کي بجائے کسی فوت شدہ کو دعا کے لئے  وسیلہ بنایا جائے یا پُکارا جائے تو یہ شرک ہے.

    Que 3: وسیلہ کب استعمال کرنا چاہیئے؟

     Ans: وسیلہ تو دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے.جب بھی دعا مانگیں وسیلہ لگائیں، خصوصاً جب الله تعالى سے قربت اور مدد طلب کر رهيں، تب وسيله استعمال کرنا بہتر ہے . مثلاً،اللّٰہ کے اسماء و صفات کا وسیلہ, نیک بزرگوں کا وسیلہ جو حیات سے ہوں.


    Que 4: جائز وسیلہ کی کیا مثالیں ہیں؟ 

     Ans: جائز وسیلہ کی مثالوں میں الله تعالى کے ناموں، صفات، اور اعمال صالحہ کا استعمال شامل ہے. مثلاً، دعا میں الله تعالى کے نام “یا رحمٰن” یا “یا رحیم” کو وسیلہ بنانا.


    Que 5: ناجائز وسیلہ کی کیا مثالیں ہیں؟ 

     Ans : ناجائز وسیلہ کی مثالوں میں شرک، بدعت، یا شرعي حدود کو توڑنا شامل ہے. مثلاً، کسی پیر، فقیر، یا بزرگ کو الله تعالى کا شريك بنانا یا ان سے براه راست مدد طلب کرنا ,دعا کے لیے پکارنا وغیرہ.فوت شدہ بزرگ اور قبر والوں کہ وسیلہ لینا یہ سب ناجائز ہے.


    *•┈━━━━•❄︎•❄︎•━━━━┈•*




    Post a Comment

    0 Comments