Kya char imam barhaq hain/ کیا چار امام برحق ہیں
اگر آج ہم کسی امام ، مسلک یا فرقے سے وابستگی کے بغیر مسلمان نہیں بن سکتے تو چوتھی صدی ہجری سے پہلے کے مسلمانوں کے بارے میں کیا کہا جائے ؟ Kya char imam barhaq hain اس پر آگے بڑھنے سے پہلے ذرا اس آیت اور حدیث پر غور کریں.
اللّٰہ نے سبھی کو ایک ہی دین پر پیدا کیا ہے
( شروع میں ) سارے انسان ایک ہی دین کے پیرو تھے ۔ پھر ( جب ان میں اختلاف ہوا تو ) اللہ نے نبی بھیجے جو ( حق والوں کو ) خوشخبری سناتے ، اور ( باطل والوں کو ) ڈراتے تھے ، اور ان کے ساتھ حق پر مشتمل کتاب نازل کی ، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں ان کا اختلاف تھا ۔ اور ( افسوس کی بات یہ ہے کہ ) کسی اور نے نہیں بلکہ خود انہوں نے جن کو وہ کتاب دی گئی تھی ، روشن دلائل آجانے کے بعد بھی ، صرف باہمی ضد کی وجہ سے اسی ( کتاب ) میں اختلاف نکال لیا ۔ پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انہیں اپنے حکم سے حق کی ان باتوں میں راہ راست تک پہنچایا جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا ، اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست تک پہنچا دیتا ہے ۔ (سورہ البقرہ:213)
صراط مستقیم یعنی سیدھا راستہ
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سامنے والی سمت میں ایک (سیدھا) خط لگایا اور فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو لکیریں دائیں طرف اور دو لکیریں بائیں طرف لگائیں اور فرمایا: یہ شیطان کا راستہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درمیان والے (سیدھے) خط پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت کی: اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔ (الانعام: ۱۵۳) (مسند احمد:326)
اور بُخاری کی حدیث ہے کہ:
اے قرآن و حدیث پڑھنے والو ! تم اگر قرآن و حدیث پر نہ جمو گے ، ادھر ادھر دائیں بائیں راستہ لو گے تو بھی گمراہ ہو گے بہت ہی بڑے گمراہ ۔(صحیح بُخاری:7282)
باب:کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
ایک خاص بات ملاحظہ فرمائیں
چار امام برحق نہیں بلکہ ایک ہی امام برحق ہے اور وہ تمام اماموں کے امام یعنی ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ ہیں.
اور اللّٰہ نے قرآن میں بھی اسی امام کی اطاعت یا پیروی کا حکم دیا ہے. یا ان لوگوں کی جنکا عقیدہ قرآن اور سنت کے مطابق ہو.
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں ،(سورہ النساء:59)
جہاں تک چار اماموں کی بات ہے تو چاروں اماموں نے کہا ہے کہ:
اگر میرا فتویٰ قرآن اور صحیح احادیث کے خلاف جائے تو میرے فتوے کو چھوڑ دو اور قرآن و صحیح احادیث کو مان لینا. یہاں تک تو صحیح ہے لیکن کئی ایسے مسئلہ اور مسائل ہیں جن میں چاروں اماموں میں اختلاف ہے. اور اگر واقعی چاروں امام حق پر ہیں تو اختلاف کیسا حق تو ایک ہی ہوگا اور سب سے اہم بات کہ نہ تو قرآن میں یا کسی بھی حدیث کی کتاب میں ہی ان چار امام کے حق ہونے کی کوئی دلیل ملتی ہے تو پھر کیوں ہمیں اِن چار اماموں میں سے کسی ایک کی پیروی کرنے کو کہا جاتا ہے اور دنیا میں یہی چار امام نہیں ہیں بلکہ اور بھی کئی سارے امام گزرے ہیں انکا کیا؟ اُنکے پیروی کو کیوں نہیں کہا جاتا ہے ؟
پیروی تبھی ہوگی جب سبھی کے عقائد اور نظریہ ایک ہی ہو یعنی قرآن اور سنت.پیروی کرنی ہے تو انکی کریں جنکا ہمیں اللّٰہ نے حکم دیا ہے اور جن کے برحق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور وہ ہیں ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ .
کُچّھ نادان قسم کے مقلد قرآن کی اس آیت سے یہ جواز نکالتے ہیں کہ اس آیت میں عوام الناس کو انکی تقلید یا پیروی کا حکم دیا گیا ہے
فَسۡئَلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو ۔(سورہ النحل:43)
اس آیت سے یہ صاف وضاحت ہے کہ یہاں اہل الذکر سے مراد اہلِ انجیل یعنی اہل کتاب ہیں نہ کہ اُمتِ محمدیہ کے علماء.
اہل کتاب جو پہلے کے حاملین کتاب ہیں ان سے کہا جا رہا ہے کہ اُن سے پوچھ دیکھو وہ تمہیں بتائیں گے کہ انسانوں کے اندر منصب رسالت پر بشر ہی فائز ہوتے رہے ہیں، فرشتے نہیں فائز ہوتے رہے ہیں۔
چار اماموں کا راستہ
چار اماموں نے بھی صرف اتباع سنت ہی کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی. اللہ تعالیٰ نے 10 ہجری کو حجتہ الوداع کے موقع پر اپنا دین مکمل کر دیا ۔ تکمیل دیں کے 70 سال بعد امام ابو حنیفہ - 83 سال بعد امام مالک - 140 سال بعد امام شافعی اور 154 سال بعد امام احمد بن حنبل پیدا ھوئے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں : تکمیل دین کے چار سو ( 400 ) سال بعد تک اہل اسلام کسی ایک فقہ یا مسلک کے پیرو کار نہیں تھے "( حجتہ اللہ البالغہ، ج 1ص 152 )
لمحہ فکریہ ! ائمہ اربعہ ( چار اماموں) کے واضح ارشادات کے بعد ان کی تقلید اور ان کے ناموں سے موسوم فرقوں کی کیا حقیقت رہ جاتی ھے؟
Read this: Ahle bidat Ke Sawalat Aur Aitrazat part 1
اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں ، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے
(سورہ النساء 59)
(سورہ النساء 59)
یہ بات قرآن میں کئی بار کہی گئی ہے اس آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اللّٰہ نے ہمیں کسی امام کی پیروی کرنے کے لئے نہیں کہا بلکہ نبی کریم ﷺ کی پیروی کرنے کو کہا ہے.
اور جہاں تک اماموں کی بات ہے تو چاروں اماموں نے کہا ہے کہ: اگر میرا فتویٰ قرآن اور حدیث کے خلاف جائے تو میرے فتوے کو چھوڑ دینا اور قرآن و صحیح حدیث کو ماننا.
اسلام اِن چاروں اماموں سے پہلے مکمل تھا.اللہ اور اسکے رسول محمد صلى الله عليه وسلم نے ہمیں قرآن اور سنة (صحیح احادیث) کی پیروی کا حکم دیا ہے نہ کہ کسی مسلک یا فرقے کے امام کی.اس لیے اللہ کے ہاں قابلِ قبول دین صرف اسلام ہے.اسکے علاوہ کسی اور دین کی پیروی نہیں ہوگی
اقوال امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ؒ امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں:
"حرام علي من لم يعرف دليلي ان يفتي بكلامي.(میزان للشعرانی ،عقدالجید70)
’’کہ میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے.جب تک میری بات کی دلیل معلوم نہ ہو۔
اذا قلت قولا و كتاب الله يخالفه فاتركوا قولي بكتاب الله فقيل اذا كان خبرالرسول صلي الله عليه وسلم يخالفه قال اتركوا قولي بخبرالرسول صلي الله عليه وسلم فقيل اذا كان قول الصحابة يخالفه قال اتركوا قولي يقول الصحابة.(عقدالحید 53)
’’جب میرا قول قرآن کے خلاف ہو تو اسے چھوڑدو.لوگوں نے پوچھا جب آپ کا قول حدیث کے خلاف ہو؟ فرمایا اس وقت بھی چھوڑدو.پھر پوچھا جب صحابہؓ کے فرمان کے خلاف ہو تو؟
کہا تب بھی چھوڑدو۔
اذا رايتم كامنا يخالف ظاهر الكتاب والسنة فاعملوا بالكتاب والسنة واضربوا بكلامنا الحائط
(میزان للشعرانی ، عقدالجید 53)
’’جب دیکھو کہ ہمارے قول قرآن و حدیث کے خلاف ہیں تو قرآن و حدیث پر عمل کرو اور ہمارے اقوال کو دیوار پر دے مارو۔
امام ابوحنیفہ ؒ کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے لائق ہے فرماتے ہیں:
اذا صح الحديث فهو مذهبي (عقدالجید)’’صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔
ماجاء عن رسول الله صلي الله عليه وسلم فعلي الراس والعين.(ظفرالاماني)
’’جو حدیث سے ثابت ہو وہ سر آنکھوں پر ہے۔
وقال الامام ابوحنيفة لاتقلدوني ولا تقلدون مالكا ولاغيره وخذالاحكام من حيث اخذوامن الكتاب والسنة-كذا في الميزان.(تحفہ الاضیاء فی بیان الابراء)
’’میرا تقلید نہ کرنا اور نہ مالک کی اور نہ کسی اور کی تقلید کرنا اور احکام دین وہاں سے لینا جہاں سے انہوں نے لیئے ہیں یعنی قرآن و حدیث سے۔
ان اقوال سے یہ بات روز روشن کی طرح صاف ظاہر ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کا عقیدہ مذہب قرآن و حدیث ہے.جو مسئلہ حدیث سے ثابت ہو وہ قابل عمل ہے
Read this: Ahle bidat Ke Sawalat Aur Aitrazat part 2
اس کے علاوہ فرمایا کہ میری تقلید نہ کرنا اور نہ ہی بغیر دلیل کے میری باتوں کو ماننا.صرف قرآن وحدیث پر عمل کرنا امام موصوف نے کتنی حق بات کہی ہے۔
اقوال امام مالک بن انسؒ امام مالک ؒ فرماتے ہیں:
"مامن احدا لا وهو ماخوذ من كلامه و مردود عليه الارسول الله صلي الله عليه وسلم.(عقدالجید 70)
’’دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس کی بعض باتیں درست اور بعض غلط نہ ہوں پھر اس کی درست باتیں لے لی جاتی ہیں اور غلط رد کردی جاتی ہیں سوائے محمدﷺ کے کہ تمام باتیں صحیح و درست اور مان ہی لینے کے لائق ہیں ایک بات بھی ساری زندگی کی چھوڑنے کے قابل نہیں۔
انما انا بشراخطي واصيب فانظروا في راي فكل ماوافق الكتاب والسنة فخذوه وكل مالم يوافق فاتركوه-(جلب المنفعۃ 74)
’’میں صرف ایک انسان ہوں کبھی میری بات درست ہوتی ہے اور کبھی غلط تو تم میری اس بات کو جو قرآن وحدیث کے مطابق ہو لے لیا کرو اور اس بات کو جو اس کےخلاف ہو چھوڑ دیا کرو۔(یعنی میری جامد تقلید مت کرو)
Telegram Group
Join Now
اقوال امام محمد بن ادریش الشافعیؒ امام شافعی ؒ نے فرمایا
"قال الشافعي اذا قلت قولا وكان النبي صلي الله عليه وسلم قال خلاف قولي فما يصح من حديث النبي اولي ولا تقلدوني.(عقدالجید 54)
’’جب میں کوئی مسئلہ کہوں اور رسول اللہ نےمیرے قول کے خلاف کہا ہو تو جو مسئلہ حدیث سے ثابت ہو وہی والی ہے پس میری تقلید مت کرو۔
انه كان يقول اذا صح الحديث فهو مذهبي اذا رايتم كلامي بخلاف الحديث فاعلموا بالحديث واضربوابكلامي الحائط.(عقدالجید 70)
’’جب صحیح حدیث مل جائے (جانو کہ) میرا مذہب وہی ہے اور جب میرے کلام کو حدیث کے مخالف دیکھو تو (خبردار) حدیث پر عمل کرو اور میرے کلام کو دیوار پر دے مارو۔
فقد صح عن الشافعي انه نهي من تقليده وتقليد غيره (عقدالجید)
’’امام شافعی ؒ نے اپنی تقلید اور غیر کی تقلید سے منع کیا ہے۔
Read this: Ahle bidat Ke Sawalat Aur Aitrazat part 3
اقوال امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:
"ولاتقلدني ولا تقلد مالكا ولاالشافعي ولا الاوزاعي ولا الثوري وخذو ا لاحكام من حيث اخذو ا من الكتاب والسنة.(عقدالجید 70)
’’ہرگز میری تقلیدنہ کرنا اور نہ امام مالک کی اور نہ امام شافعی کی اور نہ امام اوزاعی کی اور نہ امام ثوری کی جہاں سے یہ تمام امام دین کےاحکام و مسائل لیتے تھے تم بھی وہیں (قرآن و حدیث) سے ہی لینا۔
وكان الامام احمد يقول ليس لاحد مع الله ورسوله كلام.(عقدالجید)
’’کسی کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کلام کی گنجائش نہیں ہے۔
Note:
ان چاروں اماموں کے اقوال سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے محمدﷺ کی حدیث کے مطابق ما انا عليه واصحابي کا راستہ اختیار کرنے کا حکم فرمایا یہ سب کے سب قرآن وحدیث پر عمل کرتے تھے یہی ان کا مذہب تھا
ان چاروں بزرگوں نے اپنی تقلید سے منع کیا اور کسی نے بھی علیحدہ مذہب اپنے نام سے منسوب کرکے مرتب نہیں کیا۔
نبیﷺ نےفرمایا: ”سب سے بہتر اہل زمانہ میرے ہیں پھر وہ جو انکے بعد والے ہیں اپنے زمانہ کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا۔(بخاری)
علامہ ابن حجر ؒ فتح الباری پارہ 14 باب فضائل اصحاب النبیﷺمیں تحریر فرماتے ہیں کہ تبع تابعین دو سو بیس (220) برس تک زندہ رہے ان کے زمانے میں بھی کسی خاص شخص کی تقلید و خاص شخص کا مذہب کسی کا نہ تھا محترم آئمہ کرام ؒ کے شاگردوں نے بعض مسائل میں اختلاف کیا ہے اس لیے کہ وہ مقلد نہ تھے۔
علامہ سندبن عتانؒ تحریر فرماتے ہیں کہ صحابہؓ کے زمانے میں کسی خاص شخص کے نام کا مذہب نہ تھا جس کی تقلید کی جاتی ہو
ہرحال قرون ثلاثہ میں تقلید کا وجود نہ تھا۔ ہمارے لیئے صرف کتاب وسنت کی اتباع ضروری ہے
رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا:
"ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنتی.(موطا امام مالک)
"میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں کبھی گمراہ نہ ہوگے اگر انہیں تھامے رہوگے
ایک کتاب اللہ اور دوسری میری سنت (طریقہ)
معلوم ہوا کہ حق کا معیار صرف قرآن و سنت ہے.ان اماموں کے ماننے والوں نے فرقے بنادئیے
اور پھر مزید بچے جنتٕے گئے
اللّٰہ سُبحان و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ
"آج ہم نے تمہارے لیئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا.(المائدہ: 3)
قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ
"کہہ دیجیئے! کہ اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرو اگر یہ منہ پھیرلیں تو بیشک اللہ تعالٰی کافروں سے محبت نہیں کرتا۔(آل عمران: 32)
کس نے کہا ہے کہ اسلام میں چار امام ہوں گے اور ان کی تقلید کرو امام تو ہر اس عالم کو کہا جاتا تھا جو درس و تدریس کرتا تھا یا تدوین حدیث کا کام کرتا تھامعلوم ہوا کسی امام نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے بعد حنفی، حنبلی، مالکی یا شافعی ہوجانا انہوں نے کوئی نئی شریعت نہیں بنائی ہے یہ سارے مسلک تو بعد میں بنے ہیں ہاں ان اماموں سے کوئی ایسی بات ہم تک پہنچے جو قرآن وحدیث کے مطابق ہو اسے ہم بالکل تسلیم کریں گے شریعت صرف اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چلے گی
قرآن بھی یہی کہتا ہے: "قل اطیعو اللہ واطیعو الرسول۔۔(نور: ۵۴)
"کہہ دو کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول کی اطاعت کرو۔
اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ان اماموں کا آپس میں اکثر باتوں میں بہت واضح اختلاف ہے
پڑھنے کو یہ بھی ملتا ہے کہ بعض امام تو قرآن کے برخلاف خودساختہ عقیدہ رکھتے تھے
بلکہ اپنے عقیدے خودساختہ پر ایمان نہ رکھنے والے کو دائرہ اسلام سے ہی خارج سمجھتے تھے
اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ایک امام کی تقلید لازم ہے تو وہ واضح طور پر قرآن وحدیث کیساتھ ساتھ (اپنے امام کے قول کا بھی) انکار کرتا ہے۔
(ماخوذ: ح۔ب۔ل۔١۵)
👍🏽 ✍🏻 📩 📤 🔔
Like comment save share subscribe
Conclusion :
اب یہ بات صاف طور پر واضح ہو گئی کہ دین اللّٰہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت میں کسی امام کی نہیں.
تو آئیے ! ہم بھی اسی سر چشمہ رشد و ہدایت سے براہِ راست دین حاصل کریں جس سے صحابہ کرام ، ائمہ اربعہ اور محدثین عظام نے دین حاصل کیا ، کہ یہی ان کی تعلیمات کا تقاضا ھے ۔
عمومن یہ عزر پیش کیا جاتا ھے کہ کتاب و سنت کو براہِ راست سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ لیکن یہ بات درست نہیں ھے ۔ ہمارے لیئے کتاب و سنت کو سمجھنا بہت آسان ھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لیئے بطورِ خاص معلم بنا کر مبعوث فرمایا ھے ۔ صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مکمل دین سیکھا اور اسے ہم تک پہنچانے کا حق ادا کیا ۔ صحابہ کرام کی طرح چار اماموں نے بھی صرف اتباع سنت ہی کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ، اور اپنی ہر اس رائے کو رد کرنے کا حکم بھی خود ہی دے دیا جو قرآن و حدیث سے ٹکراتی ھو ۔ بات بالکل صاف ہے ، صرف سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
FAQs:
سوال 1: چار امام کون ہیں؟
جواب: چار امام یہ ہیں.
1. امام ابو حنیفہ (نعمان بن ثابت)
پیدائش: 80ھ/699ء، کوفہ, وفات: 150ھ/767ء، بغداد, فقہ: حنفی
2. امام مالک بن انس
پیدائش: 93ھ/715ء، مدینہ, وفات: 179ھ/796ء، مدینہ, فقہ: مالکی
3. امام محمد بن ادریس شافعی
پیدائش: 150ھ/766ء، غزہ, وفات: 204ھ/820ء، مصر, فقہ: شافعی
4. امام احمد بن حنبل
پیدائش: 164ھ/780ء، بغداد, وفات: 241ھ/855ء، بغداد, فقہ: حنبلی
سوال 2: کیا چاروں امام حق پر ہیں؟
جواب: جی نہیں ! چاروں امام حق پر ہیں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ حق ایک ہی ہوتا ہے اور حق وہی ہوگا جسے اللّٰہ نے حق بنایا ہے. اور ایسے بھی چاروں امام کے کئی ایسے مسئلہ و مسائل میں آپسی اختلاف ہے تو جہاں اختلاف ہو وہاں حق کیسا ؟ حق تو ایک ہی ہوگا.
سوال 3: کیا ہمیں چاروں اماموں کی پیروی کرنی چاہیے؟
جواب: اللّٰہ نے ہمیں قرآن مجید میں اللہ اور اپنے رسول ﷺ کی پیروی یا اطاعت کا حکم دیا ہے رہے چار امام تو جہاں تک چار اماموں کی بات ہے تو چاروں اماموں نے کہا ہے کہ:
اگر میرا فتویٰ قرآن اور صحیح احادیث کے خلاف جائے تو میرے فتوے کو چھوڑ دو اور قرآن و صحیح احادیث کو مان لینا انہونے نے کہیں نہیں کہا ہے کہ میری پیروی کرو.
سوال 4: کیا چاروں اماموں کے درمیان اختلافات ہیں؟
جواب: جی ہاں، چاروں اماموں کے درمیان فقہی مسائل میں اختلافات ہیں، کئی ایسے مسئلہ مسائل ہیں جن میں اختلاف پایا جاتا ہے
سوال 5: کیا چاروں اماموں کی تعلیمات آج بھی قابل عمل ہیں؟
جواب: چاروں اماموں کی تعلیمات آج بھی قابل عمل ہیں لیکن تب جب اُنکے تعلیمات قرآن اور سنت کے مطابق ہو اور جو قرآن اور حدیث کے خلاف ہو اُسے خود ان اماموں نے منع فرما دیئے,آج بھی امت مسلمہ ان کی تعلیمات پر عمل کرتی چلی آ رہی ہے۔
0 Comments
please do not enter any spam link in the comment box.thanks